عزیز اللہ خان
بلوچستان میں بلوچ رہنماؤں کے قتل کے حوالے سے تیسرے روز بھی ہڑتال اور تشدد کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے اور جہاں کوئٹہ میں ایک پولیس اہلکار سمیت چار افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے وہیں شہر کے مضافات سے چھ افراد کی لاشیں ملی ہیں جنہیں تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا ہے۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں سینیچر کو بھی ہڑتال رہی۔ کاروباری مراکز اور دکانیں بند رہیں جبکہ کوئٹہ میں سریاب روڈ اور بروری کے علاقوں میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔
بلوچستان میں پرتشدد احتجاج اور ہڑتال: تصاویر
سینیچر کو کوئٹہ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں منوجان روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک اہلکار کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا ہے جبکہ جناح ٹاؤن اور سرکی روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور ایک بچی سمیت دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح کرانی میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق کوئٹہ کے مضافات میں مارگٹ کے مقام سے چھ افراد کی لاشیں بھی ملی ہیں جنہیں تشدد کے بعد سر میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ ان افراد کا تعلق کشمیر، پنجاب اور صوبہ سرحد سے بتایا گیا ہے۔
کوئٹہ میں عالمو چوک کے قریب ریل کی پٹڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ یہ ریل پٹڑی کوئٹہ کو پاک افغان سرحد پر واقع شہر چمن سے ملاتی ہے۔ اس کے علاوہ تربت میں ایک ریسٹ ہاؤس، مسلم لیگ قائداعظم کے دفتر اور بینک جبکہ پنجگور میں فائر بریگیڈ کی گاڑی اور محکمۂ زکوٰۃ کے دفتر اور نوشکی میں جیل کی نئی عمارت کو آگ لگا دی گئی ہے۔ تربت، گوادر اور پنجگور میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں جبکہ تربت میں خواتین نے فرنٹیئر کور کے کیمپ کے سامنے دھرنا دیا اور سخت نعرے بازی بھی کی۔
تینوں بلوچ رہنماؤں کی لاشیں تربت سے ملی تھیں
سینیچر اور جمعہ کی درمیانی شب قلات میں سات راکٹ فائر کیے گئے جو ایف سی کیمپ اور مختلف مقامات پرگرے جس سے ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ دریں اثنا بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان سرباز بلوچ نے سریاب روڈ پر فائرنگ اور گزشتہ روز سرکار کے حمایتی دو افراد کو ہلاک کرنے کی زمہ داری اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کی ہے ۔ سرباز بلوچ نے کہا ہے کہ انھوں نے زین کوہ میں ایف سی کی چوکی پر حملہ کیا ہے لیکن کسی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں پرتشدد واقعات کا یہ سلسلہ تین روز قبل بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کی لاشیں ملنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ ان افراد کو کچھ روز قبل اغواء کر لیاگیا تھا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں بدھ کی رات تربت کے علاقے سے ملی تھیں۔
ان ہلاکتوں کے خلاف پنجگور اور گوادر سے تین یونین کونسل ناظمین نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ سابق دور میں مسلم لیگ قائد اعظم اور اب پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اراکین پارلیمنٹ نے اپنے استعفے جماعت کےسربراہ اسرار زہری کو دے دیے ہیں۔ ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچ رہنماوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ وہ تمام افراد جن کے پاس اس بارے میں معلومات ہیں وہ چودہ اپریل تک ٹریبیونل کو فراہم کر سکتے ہیں۔
bbc
هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر