۱۳۸۸ فروردین ۲۳, یکشنبه

بلوچستان میں پہیہ جام اور ہنگامہ آرائی


بلوچستان میں تین قوم پرست رہنماؤں کے قتل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ چوتھے دن بھی جاری ہے اور اتوار کو صوبے میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال ہے۔ اس ہڑتال کی اپیل بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ اور بلوچ نیشنل فرنٹ میں شامل جماعتوں نے کی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان) نے بھی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ہڑتال کے دوران تشدد کے تازہ واقعات میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو اہلکاروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بدھ کی رات سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں اب تک گیارہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔

پولیس اہلکار کی ہلاکت کا واقعہ ڈیرہ مراد جمالی میں صحبت پور کے قریب پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے پولیس کی ایک چوکی پر فائرنگ کی ہے جس سے ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ اس کے علاوہ ہدہ کے علاقے میں پتھراؤ کے دوران تین بچے بھی زخمی ہوئے ہیں۔

اتوار کو گوادر، تربت، پنجگور، حب اور کوئٹہ میں بعض مقامات پر مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی ہے جبکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ اور آنسو گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے میں دو بینکوں، ایک ڈاکخانے اور محکمۂ زراعت کے دفتر میں کھڑے دو ٹریکٹروں اور ایک موٹر سائیکل کو آگ لگائی گئی ہے جبکہ سبزل روڈ اور سریاب روڈ پر بھی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

صوبے کے مختلف شہروں میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے

تربت میں کھجور کی پیکنگ کی ایک فیکٹری اور ماڈل سکول کے ہاسٹل کو نذرِ آتش کیا گیا ہے جبکہ شہر کے مختلف مقامات پر توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ بلیدہ میں بھی ایک بینک کو آگ لگائی گئی ہے۔ حب شہر میں مشتعل مظاہرین نے بعض مقامات پر توڑ پھوڑ کی جس کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے ان گرفتاریوں کے بعد پولیس تھانے کو گھیرے میں لے لی اور مبینہ طور پر گیارہ گرفتار مظاہرین کو رہا کروا کے ساتھ لے گئے لیکن پولیس نے اس واقعے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

گوادر میں مظاہرین نے دکانوں میں توڑ پھوڑ کر کے آگ لگا دی جس کے بعد فرنٹیئر کور اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔گوادر سے مقامی صحافی بہرام بلوچ نے بتایا ہے کہ ہڑتال کی وجہ سے مکران ڈویژن کے تمام شہروں کے لیے پروازیں بھی معطل ہیں جبکہ کوسٹل ہائی وے اور گوادر پورٹ پر بھی کام چار روز سے بند ہے جس وجہ سے گوادر سے ملک کے دیگر علاقوں کو گندم کی ترسیل نہیں ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والے آر سی ڈی شاہراہ سمیت مختلف شہروں کو جانے والی سڑکوں کو بھی ٹائر جلا کر بلاک کر دیا گیا۔

بی این پی کے رہنما حبیب جالب ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ’احتجاج نے ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان کے عوام ریاستی اداروں کی زیادتیوں کے خلاف متحد ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایجنسیاں ملوث ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ کوئی بلوچ مسلح تنظیم یہ کام کر سکتی ہے۔

پرتشدد واقعات میں متعدد شہری زخمی ہوئے ہیں

ادھر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے دی جانے والی ہڑتال کی کال پر کراچی میں بھی بلوچ اکثریتی علاقے میں ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پر امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔

کراچی سے بی بی سی کے نمائندے ارمان صابر کے مطابق بلوچ رہنماؤں کے قتل کے خلاف اتوار کو متحدہ قومی مومنٹ نے بھی کراچی میں احتجاجی جلسہ منعقد کیا جس سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے شہر کے بیشتر علاقوں میں سڑکوں کے کنارے اور عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔

ایم کیو ایم کے جلسے کے علاوہ کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر نعرے درج تھے۔ مظاہرین سے بلوچ رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اب بلوچ پہلے سے زیادہ منظم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکبربگٹی کے قتل کے بعد بلوچوں کی جدوجہد خود رو تھی لیکن اب بلوچ عوام منظم جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف بلوچ قوم پرست جماعتیں اب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہی ہیں اور بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔
bbc

هیچ نظری موجود نیست: